کیا ہی کرتا دلکی چاہت تھی مری
اپنا دل ہی جب عدالت تھی مری
لے گیا کوئی اڑا کر ہر خوشی
ایسی قسمت میں جو راحت تھی مری
راہ الفت میں وہ مجھسے کھو گئے
ورنہ ان سے کیا شکایت تھی مری
حسنِ دنیا پر نہ مرنا دردِ دل
اس بنا ہر اک محبت تھی مری
دے گیا آخر مجھے وہ رنجشیں
باوجودیکہ نہ طاقت تھی مری
جاتے جاتے دے گیا وعدہ مجھے
اس کو بھی آخر ضرورت تھی مری
سوزِ غم ہائے کسے بتلائیں گے
یہ نہ سوچا اسنے قدرت تھی مری
جب مقدر میں زیاں فرقت کا تھا
ورنہ ارشدؔ قرب حسرت تھی مری
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
94