بن تیرے کیا سماں ہے بابا بتا کہاں ہے
دشمن ہوا زماں ہے بابا بتا کہاں ہے
تیری کمی نے مجھ کو ناچار کر دیا ہے
یہ قرب مرگِ جاں ہے بابا بتا کہاں ہے
بیتاب ہو گیا ہوں دشواریء جہاں سےe
یہ جاں تو ناتواں ہے بابا بتا کہاں ہے
چلنا سکھا دیا جو اس پر ہی گامزن ہوں
خوں میں مرے عیاں ہے بابا بتا کہاں ہے
ہے یاد جب بھی آتی آنکھیں بھگوئے جاتی
بابا ترا گماں ہے بابا بتا کہاں ہے
عمرِ رواں ڈھلی ہے من میں چھپا ہے اب تک
وہ حوصلہ جواں ہے بابا بتا کہاں ہے
بحرِ محیط میں یہ لگتی پھنسی ہوئی جو
بن کشتی بادباں ہے بابا بتا کہاں ہے
مشکل سے لکھ رہا ہے ارشد تری ادائیں
خامہ غزل کناں ہے بابا بتا کہاں ہے
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی

0
11