فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
سرکشی من میں سمائی حوصلہ جاتا رہا
عشق کو سمجھا نہ جب تک بے نوا جاتا رہا
عاشقوں کی نرم فطرت کچھ سوا اس کے نہیں
اس لئے میں عشق کا پانے صلہ جاتا رہا
بس خمارِ شوق ساقی تیرے میخانے کا تھا
میں خمیرِ عشق بے شک و شبہ جاتا رہا
فصل گُل میں عشق کی تاثیر ہی کچھ اور تھی
جب خزاں آئی چمن سے وہ مزہ جاتا رہا
ہم ہی ملزم قتل کردہ منصفوں کا فیصلہ
خون کر کے وقت کا ہر پارسا جاتا رہا
مشہدِ عاشق سے آتی ہے سدا بوئے حنا
جس نےصدقے خوں کیا عرصہ ہؤا جاتا رہا
ورنہ پہلے تھا مرا یہ ذوق ارشدؔ بے مزہ
عشق جو آیا سمجھ میں تو گلہ جاتا رہا
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
26