ڈوب جانے کا بھلا وہ کیا نظارہ تھا کوئی |
عشق کے جو بحر میں ڈوبا کنارا تھا کوئی |
شکر ہے وہ مل گئے جن کا مجھے وشواس تھا |
ورنہ بہہ جاتے کہیں یاں پر ہمارا تھا کوئی |
جب سے ہاتھ آئی محبت ہم نے اپنا کر لیا |
پہلے کیا یہ کم نہیں دل پارہ پارہ تھا کوئی |
آ مرے دل کے جھروکوں کو ذرا آباد کر |
تجھ کو پہلے تو نہیں ایسا نظارہ تھا کوئی |
راستے کے شور وغل میں پھر نہ کھو جائیں کہیں |
کون ہو گا ہم نوا پہلے تمہارا تھا کوئی |
عشق کی اس بھیڑ میں جو سو گیا وہ کھو گیا |
تو بتا اس چاہ میں ثانی ہمارا تھا کوئی |
ارشدؔ اپنے بخت پر شاکر رہا ہے عمر بھر |
کیا کسی کی بند مٹھی میں ستارہ تھا کوئی |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات