کیا لطف آئے جب ترا مستانہ ،پڑھتا جائے
حمد و ثناء جا جا ترا دیوانہ پڑھتا جائے
حاصل سکون دل ملے روزانہ پڑھتا جائے
یہ سمجھوں انکے عشق کا نذرانہ پڑھتا جائے
پرواز میرے عشق کی کلمہ ہو آپ کا
سیڑھی پہ چڑھتے چڑھتے یہ دیوانہ پڑھتا جائے
جاگوں تو ان کا ذکر ہو اور دن بھی یوں کٹے
سوتے میں ہو یہ ورد کا پیمانہ پڑھتا جائے
ابلیس تلملا اٹھے میزاب ذکر سے
اعوذباللہ اوڑھ کے فطرانہ پڑھتا جائے
جامیں ملی درود کی کیسا سرور ہے
کس شان کا ہے پا لیا میخانہ پڑھتا جائے
یہ عشق بھی عجیب ہے سرکار آپ کا
مٹتا رہے یہ دل کا بھی ویرانہ پڑھتا جائے
وہ محفلِ سماع بھی ہوتی ہے تب حسیں
گر حمد و نعت کا ملے پیمانہ پڑھتا جائے
یا رب نبی کے عشق میں تکمیل ہو مری
اڑ جائے میرے دل کا یوں پروانہ پڑھتا جائے
اَرْشَدؔ فروغِ نعت میں جب ہوتی حاضری
نقشہ مدینے کا رہے پشتانہ پڑھتا جائے
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی

0
6