مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن |
بے آبرو کرے جو ایسی دل لگی سے باز آ |
نہ جو کسی کے کام آئے ، زندگی سے باز آ |
دیارِ دل کی راہ پر جو چل رہا ہے تو سمجھ |
عیوب ترک کر سبھی بے چارگی سے باز آ |
یہ صبح کی سفیدیاں وہ شام کی سیاہیاں |
یہ ہے اساسِ زندگی درندگی سے باز آ |
جہاں پہ ایک دوسرے سے نفرتیں مزید ہوں |
تو چھوڑ ایسی محفلیں فسردگی سے باز آ |
محیط ہوں محبتیں، عداوتیں نہ ہوں ذرا |
یہ ہے وقارِ زندگی، کشیدگی سے باز آ |
کبھی تو آئیگی طرب غموں کو نیند آئیگی! |
میں کہہ رہا ہوں جان من شکستگی سے باز آ |
گئے جو دن گزر گئے امید رکھ بھلائی کی |
مزاجِ ارشدؔی بدل تُو طفلگی سے باز آ |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات