| جب تمنا عشقِ تاباں کی نہیں |
| عاشقی پھر مثلِ یاراں کی نہیں |
| حسرتِ دل ذوقِ قرباں کی نہیں |
| "دل ربائی زلفِ جاناں کی نہیں" |
| تیری خواہش گلِ افشاں کی نہیں |
| جب محبت ہی گلستاں کی نہیں |
| ان کے گر مل جائے در کی حاضری |
| کوئی حسرت اور ارماں کی نہیں |
| کٹ گئی ہے زندگی جو کٹ گئی |
| اب علالت اور درماں کی نہیں |
| یاد ان کی اب مری سانسوں میں ہے |
| یہ عنایت کیسے یزداں کی نہیں |
| اب اسی پر ہے یہ ارشدؔ فیصلہ |
| زندگی ان کی ہے، غیراں کی نہیں |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات