ہر وار میں خطرہ ہے ہر ڈھال سے خطرہ ہے |
امت کے تشخص کو ہر حال سے خطرہ ہے |
بیمار کو ہر وید کی سر تال سے خطرہ ہے |
مظلوم کو منصف کے مورال سے خطرہ ہے |
آئے ہیں وہ دوبارہ لیے ، جال سے، خطرہ ہے |
سچ پوچھو تو چوروں کی ہر چال سے خطرہ ہے |
نوکر کو رہے خطرہ مالک کے بہکنے کا |
محکوم کو حاکم کے مہ و سال سے خطرہ ہے |
لوٹیں گے نئے ڈھنگ سے اس بار بھی وہ لوٹے |
اب ملک کے بیڑے کو بھونچال سے خطرہ ہے |
سونپی تھی جنہیں ہم نے اپنی ہی نگہبانی |
کچھ دال میں کالا ہے افعال سے خطرہ ہے |
اب کون رہا اپنا اس دور سیاست میں |
جو آج بنے اَرْشَدؔ لجپال سے خطرہ ہے |
مرزاخان اَرْشَدؔ شمس آبادی |
معلومات