لبوں کے سروں پہ سجاتے رہیں گے
کہ اُردو میں سب کو بلاتے رہیں گے
معطر بھی جھونکے اڑاتے رہیں گے
ادب کے یہ کوچے بساتے رہیں گے
یہ اقبال و غالبؔ کے راہی ہمیشہ
ترانوں میں اُردو سناتے رہیں گے
رہے گر کوئی تا قیامت بھی شاعر
تو اُردو کے پودے لگاتے رہیں گے
ترقی ہے منشاء یہ سالارِ اُردو
بقا تک معلیٰ پڑھاتے رہیں گے
یہی آبْشارِیں، منابع ہیں سارے
جو اُردو کے چشمے بہاتے رہیں گے
مرے ایک گوہر ہیں بابائے مرداں
جو اُردو میں ہی گنگناتے رہیں گے
سدا عشقِ اُردو میں ڈوبے ہیں ارشدؔ
بجا آدمیت سکھاتے رہیں گے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
25