مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن |
کہاں کی خاک تھی مری، کہاں اڑا کے لے گئی |
وہ میری عمر کے چراغ سب بجھا کے لے گئی |
نظر میں اس کے جو چمک تھی آسمان کی طرح |
وہی نظر مری حیات کو سجا کے لے گئی |
میں جس کے لمس سے مہک رہا تھا خواب بن کے بھی |
وہ بوئے گل مرے بدن سے ہی چرا کے لے گئی |
فریب خواب، دل کی پیاس، درد کا سمندر اور |
وہ اپنے ساتھ سب حقیقتیں چھپا کے لے گئی |
مری وفا کے زخم تک سنور گئے تھے اس کے دم |
مگر وہ زخم نارسیدہ پھر جگا کے لے گئی |
میں رات بھر چراغ دل جلاتا اس کے نام پر |
وہ صبحِ نو کا انتظار بھی مٹا کے لے گئی |
ہزار یادیں ٹوٹ کر گئیں بکھر کے ہر طرف |
وہ ایک پل میں زندگی کا سب بہا کے لے گئی |
میں جس کے پیار سے ہؤا جو ارشدؔ اور مستند |
وہی مجھے ادھورا چھوڑ کر خدا کے لے گئی |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات