محبت کے لُٹا موتی زباں کے شر سے باہر آ |
مٹا کر نفرتیں دل سے نمودِ گھر سے باہر آ |
یہ کینہ پروری تیری تجھے ہی مار ڈالے گی |
اگر پہچان بننا ہے تو اس چکر سے باہر آ |
تصور کی ذرا تصویر خود ہی کھینچ لے اپنی |
احاطہ پہلے اپنا کر کے ان کے در سے باہر آ |
بہت مخدوش ہیں لہریں سفینے کو بچا اپنے |
صفایا کر عداوت کا تو ایسے چر سے باہر آ |
اگر چہ صاف گوئی ہے وتیرہ رکھ اکابر کا |
نہ ڈر حق بات کہنے سے کسی حاصر سے باہر آ |
چھپائے رکھ نہ دردِ دل انہیں اپنی زباں دے کر |
سنا دے نغمۂ خسرو ذرا اندر سے باہر آ |
سکونِ دل کی خواہش ہے تو پیدا خاکساری کر |
خودی اپنی مٹا ارشدؔ اکڑ کے شر سے باہر آ |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات