ان سا نہ کوئی صاحبِ اشفاق وغیرہ
امت جسے ملنے کی ہے مشتاق وغیرہ
عصیاں کے جو ملجاتے ہیں تریاق وغیرہ
ہستی کے بدل جاتے ہیں اوراق وغیرہ
ملتا نہیں ان کے جو کسی طرز کا ثانی
سیرت ہو کہ صورت ہو یا اخلاق وغیرہ
پڑھتا ہوں جو نعتوں میں جی بھرتا کہاں ہے
اس شہرہ آفاق کے اسباق وغیرہ
دنیا سے وفا توڑ کے اب ان سے ہمیشہ
ہم عشق کا کر بیٹھے ہیں مِیثاق وغیرہ
اس شافع محشر کی بجا لطف و کرم سے
بخشش کی ملی ہم کو ہے مِصْداق وغیرہ
خوش بخت ہوا آج جو سینے میں وہ میرے
چپکے سے اتر آتی ہے اشراق وغیرہ
کچھ فکر نہیں تنگ ہوا ہم پہ زمانہ
یہ کم نہیں اطہر ملے ادراک وغیرہ
مل جاتی ہے اس در کی فقط ان کو غلامی
چن لیتے ہیں ارشدؔ ہوں جو الحاق وغیرہ

1
107
دوستوں کا بہت بہت شکریہ

0