تری ہنسی مری آہوں میں جل بھی سکتی ہے
ابھی یہ بخت کی صورت بدل بھی سکتی ہے
نشانہ کیوں مری غربت کو تم بناتے ہو
مری زوال سے ہستی نکل بھی سکتی ہے
سلگ رہی ہیں جو آنکھیں تمہاری یادوں میں
کہیں تلاطمِ مستی مچل بھی سکتی ہے
بڑے وثوق سے یہ بات کر رہا ہوں میں
مری وفا سے یہ شدت پگھل بھی سکتی ہے
ہے انتظار میں پاؤں صبا کے آہٹ کے
سنو گھٹاؤں کی نیت بدل بھی سکتی ہے
بڑے ہیں فخر میں دل میں وہ تیرگی لا کر
مری یہ رات چراغاں میں ڈھل بھی سکتی ہے
ترا تو موج میں دریا ہے اب جوانی کا
مگر حیات سفینے بدل بھی سکتی ہے
ترے جو لہجے میں یہ گرمیِ حلاوت ہے
مرے خمار کو ارشدؔ ابل بھی سکتی ہے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

94