تری ہنسی مری آہوں میں جل بھی سکتی ہے |
ابھی یہ بخت کی صورت بدل بھی سکتی ہے |
نشانہ کیوں مری غربت کو تم بناتے ہو |
مری زوال سے ہستی نکل بھی سکتی ہے |
سلگ رہی ہیں جو آنکھیں تمہاری یادوں میں |
کہیں تلاطمِ مستی مچل بھی سکتی ہے |
بڑے وثوق سے یہ بات کر رہا ہوں میں |
مری وفا سے یہ شدت پگھل بھی سکتی ہے |
ہے انتظار میں پاؤں صبا کے آہٹ کے |
سنو گھٹاؤں کی نیت بدل بھی سکتی ہے |
بڑے ہیں فخر میں دل میں وہ تیرگی لا کر |
مری یہ رات چراغاں میں ڈھل بھی سکتی ہے |
ترا تو موج میں دریا ہے اب جوانی کا |
مگر حیات سفینے بدل بھی سکتی ہے |
ترے جو لہجے میں یہ گرمیِ حلاوت ہے |
مرے خمار کو ارشدؔ ابل بھی سکتی ہے |
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات