یہ سب بیکار ہیں یارو لب و رخسار کی باتیں
یہ کیسا عشق ہے کرتے ہو جو گلنار کی باتیں
سرور و عشق کی باتیں اصل کردار کی باتیں
چلو آؤ کریں مل کر حقیقی پیار کی باتیں
وہاں دھوکہ محبت میں یہاں غلبہ محبت میں
اُدھر ہے حسن کی پوجا اِدھر غفار کی باتیں
ارے میں پیش کرتا ہوں اگر مجھ کو اجازت ہو
محبت بھی اخوت بھی ہیں سچے یار کی باتیں
مجھے سویا ہی رہنے دو ابھی کچھ خواب ہیں باقی
سناؤں گا تمہیں اٹھ کر وصالِ یار کی باتیں
کہوں کیا لطف آتا ہے درونِ محفلِ جاناں
بٹھائے سامنے ہوتی ہیں جو دلدار کی باتیں
شبِ غم جب بھی آتی لیے ارمان جاتی ہے
لبوں پر ہوتی ہیں اس دم جمالِ یار کی باتیں
فنا ہو عشق میں ایسا جو دیکھے تو کہے ارشدؔ
کہ جاں دیکر بھی مسکاتا یہ ہیں حب دار کی باتیں
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

213