مرے ہی عشق کا تارا چراغِ رہگزر ٹھہرا |
سفر شہرِ مدینہ کا مرا طلبء امر ٹھہرا |
مری حسرت ہے دیرینہ تبھی اصرار رہتا ہے |
سدا رہنا محمد کے نگر میں ہی اگر ٹھہرا |
جو خالق نے نوازی ہے مجھے انکی ثنا خوانی |
وہ میرے مجتبیٰ ٹھہرے میں ان کا نعت گر ٹھہرا |
گئے وہ عرش پر آقا زباں پر تھا مری امت |
مرا رہبر ہی تسلیم و رضا میں معتبر ٹھہرا |
لکھاری ختم ہو جائیں سمندر بھی سیاہی کے |
لکھے سیرت مکمل جو کہاں کوئی بشر ٹھہرا |
کجا میری فنا ہستی کجا وہ شان اقدس ہے |
مگر اک نسبتِ سرور سے میں بھی خاکِ در ٹھہرا |
رچا جو عشقِ جامی ہے مرے تخلیقی باطن میں |
مدینے کا مرا دل بر جہاں کا تاجور ٹھہرا |
اگر سو سال بھی جی لیں بھرے دنیا کے میلوں میں |
مگر اک لمحہ بہتر ہے جو تیرے آ کے در ٹھہرا |
مری آنکھوں میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے |
تری ارشدؔ محبت کا یہ ہدیہ کار گر ٹھہرا |
معلومات