| چمک جگنو کی برقِ راہرو اقدام ہوتی ہے |
| قفس میں جیسے قدرِ آشیاں آرام ہوتی ہے |
| عجب انداز میں یہ زندگی ہر گام ہوتی ہے |
| بھلی معلوم ہوتی ہے کہیں آلام ہوتی ہے |
| نہیں ملتا کوئی تکیہ جگت ناکام ہوتی ہے |
| بجا ہے وہ غریبوں کی بھی دوبھر شام ہوتی ہے |
| تجسس کی نظر کرتی ہے پیدا بدگمانی کو |
| تخیل اور ہوتا ہے ادا بدنام ہوتی ہے |
| بسایا ہو محبت کو تو یوں محسوس ہوتا ہے |
| اگر جلوت نہیں تو خلوتوں کی شام ہوتی ہے |
| جو دولت کے نشے میں کرتا ہے بے بس کی رسوائی |
| تو پھر فریاد بھی محتاج کی کہرام ہوتی ہے |
| نہیں رہتا سدا قائم وہ ظلمت جبر کا دوراں |
| جہاں پر ظلم ہو ارشدؔ تو گھنی شام ہوتی ہے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات