فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
تمنا مری ہے مری جستجو ہے
کہ دل میں مرے جو فقط اللہ ہو ہے
نہیں ہے جہاں میں کوئی سمت خالی
جو دیکھا کہیں بھی ترا رنگ و بو ہے
میں کھا کر قسم یہ تری کہہ رہا ہوں
جدھر سوچتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
مٹے نامیوں کے نشاں بھی جہاں سے
رہا کوئی رستم نہ ہی خوب رو ہے
جو اہلِ کرم پر کرم دیکھتے ہیں
کہے ذرہ ذرہ یہ تیری ہی ضو ہے
جو ارشدؔ زباں پر سجائے ہے مدحت
یہ تیری عطا ہے مری آرزو ہے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
143