یہ کیسا سکوتِ فغاں چپکے چپکے
جلا ہے مرا آشیاں چپکے چپکے
نہ کوئی صدا، ہے صلہ، یا گلہ ہے
لیے دل نے سب امتحاں چپکے چپکے
چلے درد کی رہگزر سے مگر ہم
لبوں پر رہی ہے فغاں چپکے چپکے
کہاں تک چھپائیں تری بے وفائی
ہؤا کچھ ہمیں بھی گماں چپکے چپکے
ہوئے بے اثر زخم بھی اک گھڑی میں
رہی آنکھ پھر بھی رواں چپکے چپکے
یہ کیسا نشیمن ہوا خاک اپنا
لگے جلنے سب آشیاں چپکے چپکے
کہاں تک نبھاتے وفاؤں کے رستے
بکھرتی گئی داستاں چپکے چپکے
کسی سے نہ ارشدؔ ہوئی گفتگو بھی
رہی دل میں اک داستاں چپکے چپکے
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
5