| ہماری آنکھ میں خوابوں کا اک گلزار دستا ہے |
| جمالِ یار دستا ہے، مہا کا پیار دستا ہے |
| کبھی مہتاب بن کر روشنی دیتا ہے محفل کو |
| کبھی خورشید سی تیری نظر کا پیار دستا ہے |
| لبوں کی سرخیاں جیسے گلابوں پر ہو شبنم سی |
| نگاہِ یار پر اک حُسن کا شہگار دستا ہے |
| تری زلفوں کے سائے میں یہ دل آرام پاتا ہے |
| کہیں پر سوز جاناں، نغمۂ دلدار دستا ہے |
| تری پلکوں کی جھلکی جب گرے صحرا کی خشکی پر |
| نظارہ جیسے صحرا پر گھنا بَازار دستا ہے |
| اداسی میں بھی جب لب پر تبسّم جھلملاتا ہے |
| تو غم کے زخم پر مرہم کا سا آثار دستا ہے |
| نگاہِ ناز میں جادوگری بھی کیسی ہے جاناں |
| کہ جس کے سامنے دنیا کا من اسکار دستا ہے |
| وہی لب ہیں، تبسّم ہے، وہی اندازِ گفتاری |
| ہر اک لفظ اس کا دل پر نغمۂ تکرار دستا ہے |
| تری پلکوں کے سائے میں سکوں پاتا ہے مضطر دل |
| یہیں پر راحتِ جاں کو بڑا درکار دستا ہے |
| عجب ہے حسن کی دنیا، عجب ہے رنگِ محفل بھی |
| جہاں پر تیرا جلوہ ایک یہ شہکار دستا ہے |
| تری زلفوں کے سائے میں چھپے لاکھوں فسوں ایسے |
| کہ جن کو دیکھ کر دل بھی بڑا لاچار دستا ہے |
| تری باتوں میں ہے شوخی، تری آنکھوں میں ہے مستی |
| یہی انداز دل پر مثلِ آہن وار دستا ہے |
| نہ پوچھو رنجِ ہجراں کا، نہ پوچھو زخمِ تنہائی |
| جدائی کا ہر اک لمحہ بڑا دشوار دستا ہے |
| تری مسکاں، تری خوشبو، ترا لہجہ، ترا انداز |
| محبت کے سفر میں رہنما ہر بار دستا ہے |
| یہ ارشدؔ مان لیتے ہیں، حقیقت ہے یہی یارو |
| کہ اس کے ناز کے آگے سبھی بےکار دستا ہے |
| یہ ارشدؔ حُسن کی دنیا بھی تجھ پر ناز کرتی ہے |
| کہ حسنِ بے مثالوں پر ترا معیار دستا ہے |
معلومات