بزمِ ساقی رہے دور چلتا رہے
ہم کو جامِ تمنا سنبھلتا رہے
رونقِ میکدہ یوں سلامت رہے
جامِ ہستی سے لرزہ نکلتا رہے
کیسے آئے گی میری ادا کسر میں
ہیں مرے شعر میں وہ مری نثر میں
خو بدلتا نہیں دل کسی حشر میں
آنکھ دل کی کھلے دل مچلتا رہے
رب نے بخشی ہیں مجھ کو روا داریاں
لوگ سمجھیں انہیں میری ناکامیاں
لوگ لوگوں کی ڈھونڈیں مگر خامیاں
دل مرا عشق کے پارے پڑھتا رہے
چاہے دشمن ہو سارا زمانہ مرا
یہ رہا ہے رہے گا فسانہ مرا
کب چلا ہے چلے گا بہانہ مرا
دل نبی کا فقط ورد کرتا رہے
عشق میرا انوکھا ہے سنسار سے
ہے یہ انجان دل، دہرے معیار سے
ہو نہ اک پل جدا اپنے غم خوار سے
چاہے دنیا میں تانتا بدلتا رہے
زندگی تو امانت ہے مولا تری
تیری رحمت ملی بن گئے امتی
امتی امتی جو پکارے نبی
دل یہ ساقیِ کوثر پہ مرتا رہے
کیسے بدلیں گی اب دل کی رعنائیاں
بجھ چکی ہیں جو دل پر تھیں پرچھائیاں
عشق میں ڈوبی اَرْشَدؔ کی گہرائیاں
یوں خمارِ محبت سنورتا رہے

0
49