Circle Image

Qazi Rashid Mateen Ahmad

@qrmahmad

جانور سی رہے گی خُو کب تک ؟
خوں سے آتی رہے گی بُو کب تک؟
بربریت بنامِ مذہب کیوں؟
اس کی ہو گی بھلا نَمو کب تک؟
کب ہوس کی نماز ہو گی ادا ؟
خونِ ناحق سے اور وضو کب تک؟

1
13
تھی عیاں چہرے پہ دن بھر کی تھکن ٹوٹے تھے پر
لوٹ کر آئے جو پنچھی شام سے پہلے بھی گھر
آسماں پر اس طرح پھیلی ہے رنگوں کی دھنک
جس طرح بکھرا ہو کوئی ٹوٹ کر شوریدہ سر
راحتیں مہمان کی صورت ملیں، آئیں، گئیں
رہ گئے باقی غمِ تنہائی، میں، گھر کے شجر

0
7
گردشِ حالات میں آئے ہوئے ہیں
جب سے تیری بات میں آئے ہوئے ہیں
دشمنوں سے قتل ناممکن ہے میرا
کیا بھلا سوغات میں آئے ہوئے ہیں؟
دشمنی خود سے نبھانے کے لیے ہم
آج اپنی گھات میں آئے ہوئے ہیں

0
3
تجھ پہ مرنے کے لیے کب سے یہ سودائی ہے
دل ہے پہلو میں مرے یا کوئی ہرجائی ہے
تجھ سے آباد کبھی دل کا جہاں تھا میرا
تیرے جاتے ہی مری جان پہ بن آئی ہے
اپنے آغوش سے اٹھنے نہیں دیتی مجھ کو
تجھ سے اچھی تو مرے یار یہ تنہائی ہے

0
4
تیری آنکھوں کے جو حصار میں ہے
کب ہمارے وہ اختیار میں ہے
جا بتاؤ مرے رقیبوں کو
غنچہء دل کھلا بہار میں ہے
آ جنوں! ہم بسیں وہاں جا کر
اجنبیت نہ جس دیار میں ہے

0
3
زخم دل کا مہک ہی جانا ہے
یاد تیری تو اک بہانہ ہے
خود سے ملتا ہوں آئینوں میں اب
تجھ سے ملنے کا شاخسانہ ہے
تجھ سے مل کر میں بھول جاتا ہوں
زندگی درد کا فسانہ ہے

0
4
عطائے دستِ قدرت نے عجب تقسیم رکھ دی ہے
بگولے ہیں چمن میں دشت میں تسنیم رکھ دی ہے
بہر صورت مجھے اب رُخ بدلنا ہے ہواؤں کا
سو میں نے طاقِ نسیاں پر خوئے تسلیم رکھ دی ہے
کہاں دن رات جاتے ہیں، کہاں سے لوٹ آتے ہیں؟
عناصر کے مرتب نے یہ کیا تنظیم رکھ دی ہے

0
6
یاد تو مجھ کو بھی کیا ہو گا
جب کبھی خود سے وہ ملا ہوگا
شام کے سرمئی سے آنچل میں
اس کا چہرہ کھلا کھلا ہو گا
پھول ہونٹوں کو چومتے ہوں گے
وہ بھی خوشبو میں ڈھل گیا ہوگا

0
3
ایک ڈھونڈا تو صد نکل آئے
حاسدوں کے حسد نکل آئے
دھوپ ڈھلتے ہی بڑھ گئے سائے
سائیوں کے خال و خد نکل آئے
جاں گُسل ہے شعورِ آگاہی
اچھے اچھوں سے بد نکل آئے

0
2
مطلبی لوگوں سے رکھوں واسطہ؟ ہوتا نہیں
بند گلیوں میں کہیں بھی راستہ ہوتا نہیں
دھیرے دھیرے سیکھتا ہے آدمی حالات سے
"ٹھوکریں کھانے سے پہلے تجربہ ہوتا نہیں "
اس قدر مصروفیت نے دور ہم کو کر دیا
اب تو خود سے بھی ہمارا رابطہ ہوتا نہیں

0
2
اب کوئی حادثہ نہیں باقی
شہر میں آشنا نہیں باقی
عشق سے ہوگئی طبیعت سیر
سر میں سودا رہا نہیں باقی
سوچ کے اس مہیب جنگل میں
یاد کا راستہ نہیں باقی

0
2
کس جگہ کس نگر ہے کہاں روشنی
ہر طرف ہے اندھیرا یہاں روشنی
چاند نکلا نہیں تارے حیران ہیں
ہے پریشاں بعید از گماں روشنی
شمعیں سب نے جلائیں سحر دم مگر
اک کرن تک نہ پھوٹی جواں روشنی

0
3
ڈرتے ڈرتے ٹھہر کے دیکھا ہے
آج اُسے آنکھ بھر کے دیکھا ہے
زندگی اس قدر حسیں ہو گی
اُس کی صورت پہ مر کے دیکھا ہے
یہ جزیرہ بھی چاند جیسا ہے
ان کے دل میں اُتر کے دیکھا ہے

0
4
وہی شور و آہ و فغاں ہے ہنوز
وہی درد کی داستاں ہے ہنوز
خدا کے سوا نا خدا ہیں کئی
کوئی شرک دل میں نہاں ہے ہنوز
نظر کیجیے جس طرف جس جگہ
وہی تیرگی کا جہاں ہے ہنوز

5
دل نے آفت عجب اٹھا لی ہے
نیند کس نے مری چرا لی ہے
ہم بہاروں کو پھول دیتے ہیں
اپنا دامن اگرچہ خالی ہے
ایک جگنو نے رات بھر دیکھو
اک کرن سے سحر اجالی ہے

0
3
یونہی الزام نہ اوروں پہ لگایا جائے
فرض اپنا ہے جو اس کو تو نبھایا جائے
کیا اسے چھوڑ دیں، جانے دیں جہاں جائے وہ؟
یا اسے روک کے پہلو میں بٹھایا جائے؟
پوچھ لی جائے طبیعت بھی ذرا آج اَن کی
وہ خفا ہیں تو انھیں جا کے منایا جائے

0
3
حُسن و وفا کا ایک سمندر ہیں آنکھیں اور دھارے دو
شرم و حیا کا زیور اوڑھے نین جھکے ہیں پیارے دو
نیلی جھیل سی ان آنکھوں میں کتنے ساون ڈوب گئے
سب کچھ سہہ کر پی جاتے ہیں نین کنول مٹیارے دو
چوری چوری چپکے چپکے دل میں وہ گھُس جاویں ہیں
لاکھ بچانا چاہیں دل، پر لے جاویں ہتھیارے دو

0
2
اکیلا تھا مگر تنہا نہیں تھا
میں خود سے لڑ کے بھی ہارا نہیں تھا
بغاوت راس آنے لگ گئی تھی
کسی سے دل مرا ڈرتا نہیں تھا
مرا دشمن یہ سمجھا، مٹ چکا ہوں
میں ٹوٹا تھا،مگر بکھرا نہیں تھا

0
5
آج پھر درپیش ہے خود آگہی کا ہی سفر
پھر رہے ہیں کوچہ کوچہ قریہ قریہ در بہ در
اے خدائے شش جہت مجھ کو بھی وہ ایقان دے
جس سے ہو پیدا دعاؤں میں مری بھی کچھ اثر
کس قدر انعام ہیں مجھ پر ترے اے کردگار!
تو نے مجھ کو کر دیا ہے ایک پتھر سے گہر

0
3
شہر میں تھا ہر ایک گھر خالی
لوٹ آیا جو نامہ بر خالی
کچھ تو دیدار کی ملے خیرات
کب سے ہے کاسئہ نظر خالی
میں کسی بات سے نہیں ڈرتا
ہاں ترے ہجر کا ہے ڈر خالی

9
آنکھوں آنکھوں میں بٹ گئے کیسے
میرے غم تم سے پٹ گئے کیسے
میں نے پھولوں کو صرف چوما تھا
یہ مرے ہونٹ کٹ گئے کیسے
میں تو دامن بچا کے گزرا تھا
مجھ سے کانٹے لپٹ گئے کیسے

0
4
حادثہ حادثہ نہیں لگتا
دل کو اب کچھ بُرا نہیں لگتا
ایسا لگتا ہے میں ادھورا ہوں
مجھ سے خوش آئینہ نہیں لگتا
بن ترے کیسے دل لگاؤں میں؟
بن ترے دل مرا نہیں لگتا

0
4
میں یار کا بیمار تھا دی مجھکو دوا اور
نادان طبیبوں نے دیا روگ بڑھا اور
یارب مرے سجدوں کو ہے کافی ترا دربار
" درکار نہیں مجھکو کوئی تیرے سوا اور"
یکتا ہے یگانہ ہے احد ہے تو صمد ہے
کیا تیرے سوا کوئی ہے دنیا میں خدا اور ؟

3
مجھ کو تو یہ بھی مرحلہ دشوار ہی رہا
اس کا ہمیشہ ملنے سے انکار ہی رہا
ہاں فائدہ تو کچھ نہ دیا عشق میں مگر
دلبر ہمیشہ باعث آزار ہی رہا
اک شان برقرار رہی مفلسی میں بھی
لٹ کر بھی میں تو صاحب کردار ہی رہا

0
4
اب کے عدو کی آنکھ بھی حیران ہو گئی
وہ یوں گیا کہ زندگی ویران ہو گئی
اُلجھی ہوئی تھی میری غزل دشت میں کہیں
غم سے ملی تو اور پریشان ہو گئی
خود کو سنبھالنے میں کٹی عمرِ مختصر
سنبھلے ہی تھے کہ پھر سے پریشان ہو گئی

0
3
جو شاخ سے ٹپکا وہ لہو تازہ نہیں ہے
مرجھائے ہوئے گل کو یہ اندازہ نہیں ہے
الفت کی چمک چہرے پہ رقصاں ہے مسلسل
اس کے رخ تاباں پہ کوئی غازہ نہیں ہے
دل درد کے گن گاتا ہے یہ درد ہے کیسا
یہ عشق کی جرات کا تو خمیازہ نہیں ہے

2
خود سے ہو کر جدا رہا ہوں میں
عشق میں مبتلا رہا ہوں میں
ہو چکی ہیں سماعتیں گونگی
کب سے خود کو بلا رہا ہوں میں
آج بادِ خزاں کی زد میں ہوں
ایک مدت ہرا رہا ہوں میں

0
4
جیت پہ شک ہے ہار پہ شک ہے
مجھ کو ہر کردار پہ شک ہے
قاضی پر سالار پہ شک ہے
کٹھ پُتلی سرکار پہ شک ہے
گھر گھر پھیلی فرقہ بندی
دیں کے ٹھیکہ دار پہ شک ہے

3
تو کہاں یونہی ہاتھ آیا ہے
خاک چھانی ہے تجھ کو پایا ہے
حدِ ادراک سے نکل باہر
تو نے خود کو کہاں پھنسایا ہے
چھو نہ پائے کبھی خزاں جس کو
صحن میں وہ شجر لگایا ہے

0
2
رکھے ہوئے ہیں طاق پر اک دو چراغ بھی
یعنی کہ تیری یاد کے تازہ ہیں داغ بھی
دل ہی نہیں ہے، روح بھی تیری اسیر ہے
سوچوں میں تیری محو ہے میرا دماغ بھی
خود سے بھی اب تو ملنے کے امکاں نہیں رہے
ملتا نہیں ہے ڈھونڈے سے اپنا سراغ بھی

0
3
تارے توڑ کے لا سکتا ہوں
تیری مانگ سجا سکتا ہوں
اک اک خواہش کو دفنا کر
نفس پہ قابو پا سکتا ہوں
تو جو چاہے تیری خاطر
اپنا آپ گنوا سکتا ہوں

3
دیکھنے لگ گیا ہر ستارہ مجھے
پیار سے جب بھی اس نے پکارا مجھے
اس جہاں میں فقط اک حقیقت ہو تم
باقی ہر شے لگے استعارا مجھے
اب کے سود و زیاں سے مبرا ہوں میں
راس آنے لگا ہے خسارہ مجھے

0
2
آنکھ کے کاجل سے چن لے رتجگوں کے سلسلے
دور تک پھیلے ہوئے ہیں وحشتوں کے سلسلے
درد کی پہنائیوں سے پھوٹتی ہے راگنی
سلسلہ در سلسلہ ہیں نفرتوں کے سلسلے
موت کے پہلو میں بیٹھی سوچتی ہے زندگی
کس طرح ہاتھ آئیں گے اب راحتوں کے سلسلے

0
2
امر ہو رہا ہوں میں اشکوں میں ڈھل کے
گنہ دھل رہے ہیں مرے یوں ازل کے
یہ آنکھوں کے سورج بھی معجز نما ہیں
ترے آستاں پر جو آئین پگھل کے
جو کل تک تھے شامل حبیبوں میں اپنے
ہوئے آج دشمن نگاہیں بدل کے

0
4
کیا عجب سی روشنی ہے اس نیارے شہر میں
جگنوؤں سے قمقمے جلتے ہیں سارے شہر میں
کون ہے اپنا یہاں، پردیس ہے، پردیس میں
ڈھونڈتا پھرتا ہے دل! کس کو اُدھارے شہر میں
کیا بتائیں حال تم کو اس دلِ بیکار کا
جسم ہے ساتھی مرا دل ہے تمہارے شہر میں

0
2
ابلیس کے مآل کے نگران ہوگئے
بندے خداکے دیکھیے شیطان ہو گئے
مجھ پر لگا کے کفر کا فتوی جنابِ من
کچھ لوگ آج صاحبِ ایمان ہو گئے
سچے تھے ہم حسین کے رستے پہ چل پڑے
اور وہ یزیدِ وقت کے مہمان ہو گئے

4
دیوانگی برنگِ محبت شعورِ ذات
بنتا ہے آدمی ولی، بعد از ترقیات
کچھ حادثے بھی دل کی زمیں کر گئے گداز
کچھ وارداتِ عشق نے کر دیں تجلیات
پھیلی تو پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے یہ
سمٹی ہوئی تھی ذرے میں یہ ساری کائنات

0
2
کلی کلی ہے مضمحل چمن چمن اداس ہے
روش روش پہ حسرتیں ہیں شاخ شاخ یاس ہے
کہیں کوئی حسین دل سسک رہا ہے شام سے
فضا میں کچھ نمی سی ہے ہوا میں اس کی باس ہے
دریدہ دل بھی جی رہے ہیں شہرِ نا سپاس میں
مگر اداس آنکھ میں وفا کی التماس ہے

0
2
شب سکوتِ مرگ طاری تھا سبھی اشجار پر
پتا تک ہلتا نہ تھا تعزیر تھی گفتار پر
کیا اثر کرتی دوا بھی تیرے اُس بیمار پر
زندگی موقوف تھی جس کی ترے دیدار پر
پھر عجب انداز سے گلشن میں اتری ہے بہار
ہر کلی زخمائی ہے اور ہر کلی ہے خار پر

0
2
خاک اپنی اُڑا رہا ہوں میں
خود کو کندن بنا رہا ہوں میں
پانچوں گھی میں ہیں سر کڑاہی میں
عیش میں دن بتا رہا ہوں میں
میرے بد خواہ ہاتھ ملتے ہیں
اپنا سکہ جما رہا ہوں میں

0
2
یہ ہنر بھی ہمیں سکھا جاؤ
کیسے بھولیں تمہیں بتا جاؤ
دل کی شاخوں پہ رقص کرتی ہوئی
یادوں کی تتلیاں اڑا جاؤ
نیم وحشی زمانہ کہتا ہے
آؤ! پورا مجھے بنا جاؤ

0
5
یہ بھی ہونا ہے سانحہ پھر سے
اس کو ہو جانا ہے جدا پھر سے
ایک طوفان آنے والا ہے
کہتی پھرتی ہے یہ ہوا پھر سے
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
کاش ہو جائے رابطہ پھر سے

0
2
جتنے بھی آسماں پہ تارے ہیں
عکس یہ میری جاں تمہارے ہیں
تم حقیقت ہو زندگانی کی
باقی جتنے ہیں استعارے ہیں
سارے وصل و فراق کے لمحے
ہم نے اشعار میں اتارے ہیں

0
2
سونپ دی ہے جو امانت دیکھنا
عمر بھر کی ہے ریاضت دیکھنا
چار سو جلوہ نما وہ یار ، پر
"ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا"
زندگی بھر چھاؤں کی امید میں
تپتے سورج کی تمازت دیکھنا

0
2
تمہیں بتاؤں میں کیسے کہ میرے کیا تم ہو
مری حیات ہو، سانسوں کا سلسلہ تم ہو
حسین شوخ ہو چنچل ہو دلربا تم ہو
بِنائے عشق و محبت کی انتہا تم ہو
مرے حبیب ہو غم خوار ہو عطا تم ہو
تمام عمر جو مانگی ہے وہ دعا تم ہو

0
3
ان کے کوچے میں گر گئے ہوتے
ہم بھی کچھ کچھ سنور گئے ہوتے
گر نہ ملتا تمھارا ساتھ ہمیں
ٹوٹ کر ہم بکھر گئے ہوتے
تم نے جانا تھا جاں بھی لے جاتے
کچھ تو احسان کر گئے ہوتے

0
2
روٹھنےوالے یہ لمحات منا لیں صاحب !
دیکھیے یوں نہ مری بات کو ٹالیں صاحب !
شام کا رقص ہوا ختم کہ رات آئی ہے
مانگ تاروں سے ذرا ان کی سجا لیں صاحب !
زلف چہرے پہ بہت خوب ہے پر جان حیات
باندھیے ابر، ذرا چاند نکالیں صاحب !

0
2
ہم محبت تو کم نہیں کرتے
ہاں فسانے رقم نہیں کرتے
دل دکھاتے ہو روٹھ جاتے ہو
اس طرح تو صنم نہیں کرتے
پیار تو کیا بڑھاؤ گے تم لوگ
دل کی نفرت بھی کم نہیں کرتے

0
3
نہیں منظور مجھ کو درد کی تشہیر رہنے دو
تم اپنے غم نہ لو مجھ سے مری جاگیر رہنے دو
نئی آیات نازل ہو رہی ہیں عشق کی ہم پر
تلاوت کر رہے ہیں ہم ابھی تفسیر رہنے دو
ذرا نظریں جھکاؤں دیکھ لوں میں یار کا چہرہ
مرے اس دل کے کینوس پر چھپی تصویر رہنے دو

0
2
چاندنی اوڑھے ہوئے سیماب تن تازہ کلی
کل اچانک خواب میں آئی مرے وہ جل پری
کس قدر معصوم تھی وہ حسن کی جادو گری
روپ جس کا تھا سنہرا زندگی سے تھی بھری
زلف سے کرنیں ٹپکتی تھیں کہ جیسے روشنی
آئی تھی سورج کی ٹکیا سے نہا کر وہ ابھی

0
2
دل خوشی سے نہال پاگل
ڈالتا ہے دھمال پاگل
حال پوچھا ہے آج اُس نے
آج ہے دن کمال... پاگل!
ہوش کھو دے نہ یہ زمانہ
حُسن اپنا سنبھال، پاگل!

0
3
جہانِ عشق میں ہم لوگ معجزہ کرتے
نگاہِ یار کے تیور اگر پڑھا کرتے
ستارے توڑ کے لے آتے مانگ بھرنے کو
فلک کے چاند کو بے رنگ کر دیا کرتے
ہم آسمان کو مٹھی میں کر بھی سکتے تھے
ذرا سا تم جو مری جان حوصلہ کرتے

0
2
اک دن ایسا کر جاؤں گا
خاموشی سے مر جاؤں گا
جیون کی اِس جھیل میں بہہ کر
میں بھی پار اتر جاؤں گا
پھر نہ مجھ کو ڈھونڈ سکو گے
لوٹ کے جب میں "گھر" جاؤں گا

0
2
زندگی تیری طرف پھر سے بڑھا دیتا ہے
جب بھی ملتا ہے نیا غم وہ مزا دیتا ہے
سرمئی شال لیے سرد ہوا کا آنچل
شام ہوتے ہی تری یاد جگا دیتا ہے
برف ہوتی ہوئی یخ بستہ سیہ شب میں بھی
دھیمے لہجے سے کوئی آگ لگا دیتا ہے

0
2
یہ اور بات کہ ہم نے تمہیں پکارا نہیں
مگر تمہارے سوا کوئی بھی ہمارا نہیں
اگر یہ جان ہی لینی ہے؟آؤ لے جاؤ
پہ روز روز کا مرنا مجھے گوارا نہیں
مری حیات کے لمحے تھے مختصر جاناں
ہزاروں غم تھے جنہیں چاہ کر سنوارا نہیں

0
2
تیرا قانون یہی سب کو پتا دیتا ہے
جب بھی حق آتا ہے باطل کو مٹا دیتا ہے
دل کے مندر میں ہیں اصنام کئی مدت سے
اور اک دل ہے کہ تجھکو ہی صدا دیتا ہے
_____ ق _____
کیا بتاؤں کہ ہے کس شان کا مولا میرا

0
1
بُرے حالات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
نئی آفات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
ابھی دن کا اُجالا ہے ابھی خوشیوں کا میلہ ہے
غموں کی رات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی
ابھی احساس ہے زندہ، ابھی سر سبز ہیں سوچیں
خزاں کا پات ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے باقی

0
3
پہلے مجرم اناڑی ہوتا ہے
بعد میں اشتہاری ہوتا ہے
علم تو علم ہے میاں وہ کب
آبی، خاکی، یا ناری ہوتا ہے
چُن کے مسند پہ آپ لاتے ہیں
جو بھی اچھا مداری ہوتا ہے

0
2
عشق تھا یا خمار تھا؟ نہ رہا
وہ جنوں تھا کہ پیار تھا?؟ نہ رہا
مر مٹا آپ ہی پہ بالآخر
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
شبنمی آنکھ ہو گئی پتھر
ضبط پر اختیار تھا، نہ رہا

0
2
ہم نے صحرا سے کئی راز نہانی سیکھے
ہو گئے خاک تو پھر خاک اڑانی سیکھے
کب ہے آسان کہ رشتوں کا بھرم رکھے کوئی
خونِ دل ہو گیا تب ریت نبھانی سیکھے
مدتیں لگ گئیں الفاظ کو چنتے چنتے
ڈھل گئی عمر تو ہم بات بنانی سیکھے

0
2
حضرتِ شیطان سے لگتا ہے ڈر
آج کے انسان سے لگتا ہے ڈر
ماورائے عقل ہیں سب فیصلے
عدل کی میزان سے لگتا ہےڈر
کب تلک نفرت کی فصلیں بوئے گا
کھیت کو دہقان سے لگتا ہےڈر

0
2
دل میں دل بر کی یاد بھی نہ رہے
اے خدا ایسی بے بسی نہ رہے
دل میں حدت سا کوئی جزبہ ہو
برف احساس پر جمی نہ رہے
ایسا جیون مجھے نہیں درکار
جس میں کوئی خوشی نہ رہے

0
2
یہ کیسی رسمِ عاشقی یہ کیسا میری جان پیار؟
ابھی ابھی ملے ہیں ہم ابھی سے کر لیں اعتبار ؟
ابھی تو ٹھیک سے تمہارا نام بھی ہوا نہ یاد
پہ یہ بھی بات سچ ہے دل ترے لیے ہے بے قرار
ابھی نگاہِ شوق ہے تمہاری دید کی اسیر
ابھی نہ منہ چھپائیے بس اک نظر اور ایک بار

0
2
جنگل شہر میں آ سکتا ہے
کچھ بھی سوچا جا سکتا ہے
تجھ کو دیکھ کے سچ کہتا ہوں
صحرا پھول کھلا سکتا ہے
پینٹ کروں آواز جو تیری
کینوس گیت سنا سکتا ہے

0
2
آج بھی پیار کو مٹانے کی
کوششیں لاکھ ہیں زمانے کی
دیکھ کر تم کو کھو دیا ہم نے
دل بھلا چیز تھی گنوانے کی ؟
تیرے بسمل تھے، یونہی مر جاتے
کیا ضرورت تھی مسکرانے کی

0
2
اس کو مجبوری بتانی پڑ گئی
جان مشکل سے چھڑانی پڑ گئی
ہوگئ بیوہ وہ جب سے خوبرو
اس کے پیچھے بد گمانی پڑ گئی
مفلسی میں کون جیتا ہے بھلا؟
اس کو مجبورا ّ نبھانی پڑ گئی

0
2
پتھر راہ سے ہٹ جاتے ہیں
جو منزل کو ڈٹ جاتے ہیں
رب راضی ہو تو پانی سے
خود سر پتھر کٹ جاتے ہیں
دل میں جب آ جائے دُوری
گھر آنگن سب بٹ جاتے ہیں

0
2
اپنا جینا محال کرتا ہے
آدمی کیا کمال کرتا ہے
نفسانفسی ہے افرا تفری ہے
کون کس کا خیال کرتا ہے
تیرے پُرکھوں نے کیا دیا تجھ کو؟
میرا بچہ سوال کرتا ہے

0
2
اب تو یاد بھی نہیں ہجر کے عذاب میں
دیکھتے ہی دیکھتے کٹ گئی سراب میں
زندگی کا ماحصل وہ جو ایک شخص تھا
کر گیا ہے نذرِ غم چاہتوں کے باب میں
ساحلوں کی ریت سے سیپیاں وہ یاد کی
لے گئی سمیٹ کر موج اک حُباب میں

0
2
عجب رتیں ہیں عذاب موسم
ہوئے ہوں جیسے کہ خواب موسم
جہاں سمندر کا راج تھا کل
وہیں بسے ہیں سراب موسم
بہارِ رفتہ سے کوئی کہہ دے
نہ ڈھونڈے اب وہ گلاب موسم

0
2
در سلامت نہ گھر سلامت ہے
شر پسندوں کا شر سلامت ہے
کون کس کا سہارا بنتا ہے
نفسانفسی ہے ڈر سلامت ہے
دُھول اُڑتی ہے صحنِ گلشن میں
ایک سوکھا شجر سلامت ہے

0
2
بکھری بکھری ذات ہماری
کیا ہم کیا اوقات ہماری
خوشیاں ہم کو راس نہیں ہیں
غم ہیں اب سوغات ہماری
بن ساون بھی اب رہتی ہے
آنکھوں سے برسات ہماری

0
2
دوستوں نے بھی دشمنی کی ہے
ہر برائی میں یاوری کی ہے
حالِ دل ہوگیا عیاں ان پر
اب کے آنکھوں نے مخبری کی ہے
آپ اچھے ادیب ہیں بھائی!
آپ نے خوب "روشنی" کی ہے

0
2
دل یہ تجھ پر نثار سا کچھ ہے
پیار ہے یا کہ پیار سا کچھ ہے
آپ معصوم بھی ہیں سادہ بھی
آپ کا اعتبار سا کچھ ہے
دل کے بدلے میں دل کا سودا ہے
عشق بھی کارو بار سا کچھ ہے

0
2
حوصلہ بحال کر
تو دعا کو ڈھال کر
دیں تری مثال سب
خود کو بے مثال کر
شعر گوئی چھوڑ دے
یا کوئی کمال کر

0
4
اپنے ایمان کی پختگی کیجیئے
بندگی دل سے معبود کی کیجئے
تیرگی ہے جہالت کی پھیلی ہوئی
نیک اعمال سے روشنی کیجیئے
بات وہ کیجیئے دل کو چھو جائے جو
گفتگو ہم سے مت بے تکی کیجیئے

0
7
تمہیں لگتا ہے گھبرایا ہوا ہوں
نہیں، میں ہوش میں آیا ہوا ہوں
رہے ہیں جو، ہمیشہ دھوپ بن کر
میں ان کے واسطے سایا ہوا ہوں
ہیں مارِ آستیں کچھ یار اپنے
جنہیں دل کے قریں لایا ہوا ہوں

0
1
مجھ سے میرا جہان مت لیجے
یاد کا سائبان مت لیجے
نقد سودا ہے کیجئے لیکن
لیجیے دل، یہ جان مت لیجے
مان ہے آپ کی محبت پر
آپ مجھ سے یہ مان مت لیجے

0
2
یہ زمیں ہے نہ آسماں میرا
ہے کوئی اور ہی جہاں میرا
آپ کے نام پر دھڑکتا ہے
دل یہ میرا بھی ہے کہاں میرا
اب کے آنکھوں نے بے وفائی کی
رازِ دل کر دیا عیاں میرا

0
2
لے کے میں جھولی میں ہوں آیا ہوا
عمر بھر میں جو بھی سرمایہ ہوا
اکتسابِ فیض مجھ سے کیجئیے
میں نے بھی ہے عشق فرمایا ہوا
عین ممکن ہے کہ خود سے میں ملوں
آج کل میں خود میں ہوں آیا ہوا

0
3
جب سے پلٹ کے زیست محبت میں آئی ہے
تاثیر تیرے پیار کی ہمراہ لائی ہے
پھولوں نے جان دے کے یہ قیمت چکائی ہے
دستِ صبا کے ہاتھ میں خوشبو تھمائی ہے
خاموشیوں کی گونج سے گبھرا کے ایک چیخ
دیوار و در کی قید سے باہر تو آئی ہے

0
2
خود نگہہ دار کب سنبھلتے ہیں
آگ میں وہ انا کی جلتے ہیں
شام کے وقت چاند تارے بھی
ڈوبتے دوست کو نگلتے ہیں
کب ہے تنہا تو عشق کی رہ پر
غم ترے ساتھ ساتھ چلتے ہیں

0
2
مری چاہتوں کا جہاں دوسرا ہے
زمیں دوسری آسماں دوسرا ہے
ہر اک شاخ پر زخم کھلنے لگے ہیں
بہاروں کا اب کے سماں دوسرا ہے
کمی گر نہیں ہے تری چاہتوں میں
تو کیوں آج طرزِ بیاں دوسرا ہے

0
1
پھر رہی ہے گمان میں منزل
جانے ہے کس جہان میں منزل
ڈھونڈنے سے خدا بھی ملتا ہے
ہاں، اگر ہو دھیان میں منزل
میں ابھی راستے میں تھا ، یکدم
آ گئی درمیان میں منزل

0
2
خواب کو چیر کے تعبیر میں در آیا تھا
رات آنگن میں مرے چاند اتر آیا تھا
مرحلہ عشق کا آسان نہیں تھا لیکن
پار یہ آگ کا دریا بھی میں کر آیا تھا
مار کر اپنی انا عشق بچا لایا ہوں
صُحبتِ قیس کا اتنا تو اثر آیا تھا

0
1
منتظر نیند کے اشارے پر
خواب ہیں آنکھ کے کنارے پر
دل نہ واروں تو اور کیا واروں
ان کے دلکش حسیں نظارے پر
سوچتا ہوں کہ توڑ لاؤں میں
ہے نظر کب سے اک ستارے پر

0
3
سمندر سوکھ کر صحرا ہوئے ہیں
کسی کی آنکھ کا صدقہ ہوئے ہیں
میں اپنا راستہ خود ہی چنوں گا
بنے رہبر یہاں جہلا ہوئے ہیں
محبت کا بھرم رکھنا پڑا ہے
ترے وعدے کہاں ایفا ہوئے ہیں

0
3
لگنے کو تھی ٹھکانےمحنت ہوئی اکارت
کچھ بھی نہ کام آئی ان آنسوؤں کی دولت
سودا دلوں کا تھا سو میں مفت دے رہا تھا
سیکھی نہیں تھی میں نے جذبات کی تجارت
آباد تجھ سےتھی، اب ویران ہو گئی ہے
مدت سے راہ تکتے دل کی حسیں عمارت

0
3
بوئے گل خود پہ ناز کرتی ہے
زلف کے ساتھ جب بکھرتی ہے
شام کے وقت یاد کر کے مجھے
پیشِ آئینہ وہ سنورتی ہے
لاکھ ارمان ہوں کسی دل میں
زندگانی کہاں ٹھہرتی ہے

0
3
پنہ مانگتا ہوں تری اے خدا
میں شیطاں کے شر سے ہر اک پل سدا
ترے نام سے ہے ہر اک ابتدا
رحیم اور رحماں ہے حد سے سوا
ہر اک حمد لازم ہے تجھ کو فقط
ہے رب عالمیں کا نہ تیرے سوا

0
3
نقشِ قدم پہ آپ کے چلنے کی جستجو
پیدا ہوئی یہ عشق کی وارفتگی سےخُو
لکھا جو نام آپ کا کرنے لگے طواف
جگنو، ستارے، چاند، فلک، سارے با وضو
صلِ علی کا ورد رہے دل میں موجزن
ہونٹوں پہ بھی ہمیشہ رہے ایسی گفتگو

6
حمدِ باری تعالی۔۔۔
جلووں کا اس کے پرتو ہے ساری کائنات
واحد ہے لیکن اس کی لاکھوں تجلیات
نے باپ ہے نہ بیٹا ثانی نہ کوئی بھی
واحد ہے وہ یگانہ یکتا ہے اس کی ذات
اُس کو نہیں تَغِّیُر ، جیسا تھا کل ہے آج

16