اب کے عدو کی آنکھ بھی حیران ہو گئی
وہ یوں گیا کہ زندگی ویران ہو گئی
اُلجھی ہوئی تھی میری غزل دشت میں کہیں
غم سے ملی تو اور پریشان ہو گئی
خود کو سنبھالنے میں کٹی عمرِ مختصر
سنبھلے ہی تھے کہ پھر سے پریشان ہو گئی
اب تو غمِ حیات کا جھگڑا نہیں رہا
دکھ سے ہمارے درد کی پہچان ہو گئی
فضلِ خدا بھی ساتھ مرے عمر بھر رہا
ماں کی دعا بھی اُس پہ نگہبان ہو گئ

0
12