تھی عیاں چہرے پہ دن بھر کی تھکن ٹوٹے تھے پر |
لوٹ کر آئے جو پنچھی شام سے پہلے بھی گھر |
آسماں پر اس طرح پھیلی ہے رنگوں کی دھنک |
جس طرح بکھرا ہو کوئی ٹوٹ کر شوریدہ سر |
راحتیں مہمان کی صورت ملیں، آئیں، گئیں |
رہ گئے باقی غمِ تنہائی، میں، گھر کے شجر |
ہم تو ہیں بھیگی ہوئی پلکوں پہ تارے کی طرح |
پر متاعِ حرف تو خوشبو سی جائے گی بکھر |
آج تک ہیں منتظر گھر کے در و دیوار و غم |
آج تک ہیں ڈھونڈتے تجھ کو ہی یہ قلب و نظر |
غم نہ کر گر ڈوبتا جاتا ہے سورج آس کا |
ہر شبِ تاریک سے پھوٹی ہے اک تازہ سحر |
صبر کے پیڑوں کو پت جھڑ بھی کبھی چھو پائی ہے؟ |
جو مرے آنگن پہ ہوتا کچھ خزاؤں کا اثر |
خونِ دل سے کر کے روشن چاہ و الفت کے دیے |
لے چلے ہیں قریہ قریہ، کوچہ کوچہ،. ہر نگر |
معلومات