زخم دل کا مہک ہی جانا ہے
یاد تیری تو اک بہانہ ہے
خود سے ملتا ہوں آئینوں میں اب
تجھ سے ملنے کا شاخسانہ ہے
تجھ سے مل کر میں بھول جاتا ہوں
زندگی درد کا فسانہ ہے
نفسا نفسی ہے افرا تفری ہے
بے حسی کا یہ کیا زمانہ ہے
خون بہایا ہے تو نے پھولوں کا
فعل تیرا یہ بزدلانہ ہے
کیسے کہہ دوں لہو لہو دل سے
"دل کا موسم بہت سہانہ ہے"
زندگی موت سے مفر کب تک
یہ ترا آخری ٹھکانہ ہے
روز ملتا ہے وہ رقیبوں سے
شوخئ یار قاتلانہ ہے

0
18