| رکھے ہوئے ہیں طاق پر اک دو چراغ بھی |
| یعنی کہ تیری یاد کے تازہ ہیں داغ بھی |
| دل ہی نہیں ہے، روح بھی تیری اسیر ہے |
| سوچوں میں تیری محو ہے میرا دماغ بھی |
| خود سے بھی اب تو ملنے کے امکاں نہیں رہے |
| ملتا نہیں ہے ڈھونڈے سے اپنا سراغ بھی |
| تو تھا تو ڈوبے رہتے تھے تیرے خمار میں |
| موسم حسیں، شراب، میں، ساقی، ایاغ بھی |
| تو کیا گیا کہ پھول ہی کھلتے نہیں ہیں اب |
| اجڑا ہوا ہے میری طرح تب سے باغ بھی |
معلومات