رکھے ہوئے ہیں طاق پر اک دو چراغ بھی
یعنی کہ تیری یاد کے تازہ ہیں داغ بھی
دل ہی نہیں ہے، روح بھی تیری اسیر ہے
سوچوں میں تیری محو ہے میرا دماغ بھی
خود سے بھی اب تو ملنے کے امکاں نہیں رہے
ملتا نہیں ہے ڈھونڈے سے اپنا سراغ بھی
تو تھا تو ڈوبے رہتے تھے تیرے خمار میں
موسم حسیں، شراب، میں، ساقی، ایاغ بھی
تو کیا گیا کہ پھول ہی کھلتے نہیں ہیں اب
اجڑا ہوا ہے میری طرح تب سے باغ بھی

0
11