دیوانگی برنگِ محبت شعورِ ذات
بنتا ہے آدمی ولی، بعد از ترقیات
کچھ حادثے بھی دل کی زمیں کر گئے گداز
کچھ وارداتِ عشق نے کر دیں تجلیات
پھیلی تو پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے یہ
سمٹی ہوئی تھی ذرے میں یہ ساری کائنات
کچھ لوگ تھے جو نفس کی پاتال میں رہے
خود ساختہ انا کے تھے مسجود سومنات
پھر یوں ہوا کہ جیت کا منظر بدل گیا
مجھ کو ہی سر کٹانا پڑا راستی کے ساتھ
اس دورِ بے ثبات میں کس سے کریں گلہ
فرصت کسے جو سوچ سکے ماورائے ذات
شب بھر رہا خدائے سخن مجھ سے ہمکلام
ڈھلتی رہی غزل میں تری ایک ایک بات

0
10