سمندر سوکھ کر صحرا ہوئے ہیں
کسی کی آنکھ کا صدقہ ہوئے ہیں
میں اپنا راستہ خود ہی چنوں گا
بنے رہبر یہاں جہلا ہوئے ہیں
محبت کا بھرم رکھنا پڑا ہے
ترے وعدے کہاں ایفا ہوئے ہیں
ہمارے حال پر خوش ہے زمانہ
ہم اس کے عشق میں رسوا ہوئے ہیں
اذیت سے نہیں واقف تم ان کی
بھری محفل میں جو تنہا ہوئے ہیں
نشاں منزل کے دیتے ہیں اشارے
ہمیں تو ہیں جو نقشِ پا ہوئے ہیں

0
17