| سمندر سوکھ کر صحرا ہوئے ہیں |
| کسی کی آنکھ کا صدقہ ہوئے ہیں |
| میں اپنا راستہ خود ہی چنوں گا |
| بنے رہبر یہاں جہلا ہوئے ہیں |
| محبت کا بھرم رکھنا پڑا ہے |
| ترے وعدے کہاں ایفا ہوئے ہیں |
| ہمارے حال پر خوش ہے زمانہ |
| ہم اس کے عشق میں رسوا ہوئے ہیں |
| اذیت سے نہیں واقف تم ان کی |
| بھری محفل میں جو تنہا ہوئے ہیں |
| نشاں منزل کے دیتے ہیں اشارے |
| ہمیں تو ہیں جو نقشِ پا ہوئے ہیں |
معلومات