اب کوئی حادثہ نہیں باقی
شہر میں آشنا نہیں باقی
عشق سے ہوگئی طبیعت سیر
سر میں سودا رہا نہیں باقی
سوچ کے اس مہیب جنگل میں
یاد کا راستہ نہیں باقی
ان کے کوچے میں جا نہ پائیں گے
دل میں اب حوصلہ نہیں باقی
بھیڑ ہے مجھ سے ملنے والوں کی
خود سے اب رابطہ نہیں باقی
شہر پر امن ہو گیا پھر سے
خوف کا سلسلہ نہیں باقی
ہر دعا با مراد لوٹی ہے
"اب کوئی التجا نہیں باقی "
ختم کب ہو گا یہ سفر راشد
زندگی سے گلہ نہیں باقی

0
2