اب تو یاد بھی نہیں ہجر کے عذاب میں |
دیکھتے ہی دیکھتے کٹ گئی سراب میں |
زندگی کا ماحصل وہ جو ایک شخص تھا |
کر گیا ہے نذرِ غم چاہتوں کے باب میں |
ساحلوں کی ریت سے سیپیاں وہ یاد کی |
لے گئی سمیٹ کر موج اک حُباب میں |
کل جو ہمرکاب تھے راستہ بدل گئے |
دل بھٹک رہا ہے کیوں آج بھی سراب میں |
عمر بھر کی رائیگاں سب عنائتیں گئیں |
پھر فصیلِ شہر سے تیر ہیں جواب میں |
تار تار پیرہن شاخ شاخ زرد ہے |
ہر کلی ہے مضمحل موسمِ گلاب میں |
وہ جدید دور کا ہمنوا تھا دوستو |
ہم کو آرزو رہی وہ ملے حجاب میں |
معلومات