امر ہو رہا ہوں میں اشکوں میں ڈھل کے
گنہ دھل رہے ہیں مرے یوں ازل کے
یہ آنکھوں کے سورج بھی معجز نما ہیں
ترے آستاں پر جو آئین پگھل کے
جو کل تک تھے شامل حبیبوں میں اپنے
ہوئے آج دشمن نگاہیں بدل کے
وہی آج ہم کو بنانے چلے ہیں
سکھایا جنہیں ہم نے چلنا سنبھل کے
فرشتوں سی صورت مگر کام ارزل
یوں ابلیس پھرتا ہے چہرے بدل کے
یہ گل چیں کی حالت ہوئی اب چمن میں
کہ خود خندہ زن ہے گلوں کو مسل کے
سفر رکھنا جاری تو منزل بہ منزل
نہ رکنا قدم دو قدم دور چل کے
جو ذکر ان کا آیا مری شاعری میں
نکھرتے گئے زاویے پھر غزل کے
ابھی آگ میں تجھ کو جلنا ہے راشد
بنے گا تو کندن ابھی اور جل کے

0
4