عجب رتیں ہیں عذاب موسم
ہوئے ہوں جیسے کہ خواب موسم
جہاں سمندر کا راج تھا کل
وہیں بسے ہیں سراب موسم
بہارِ رفتہ سے کوئی کہہ دے
نہ ڈھونڈے اب وہ گلاب موسم
وہ آئیں آ کر نہ جا سکیں پھر
بنا رہے یوں حجاب موسم
تمہاری زلفیں ہیں شام سائے
گھِرے ہوں جیسے سحاب موسم
کسی کے آنکھوں کا دُکھ پڑھا ہے
ہو جیسے غم کی کتاب موسم
بدلتے تیور جناب جیسے
ہے زندگی کا نصاب موسم

0
12