ڈرتے ڈرتے ٹھہر کے دیکھا ہے
آج اُسے آنکھ بھر کے دیکھا ہے
زندگی اس قدر حسیں ہو گی
اُس کی صورت پہ مر کے دیکھا ہے
یہ جزیرہ بھی چاند جیسا ہے
ان کے دل میں اُتر کے دیکھا ہے
اُن کے معیار پر نہ ہم آئے
لاکھ ہم نے سنور کے دیکھا ہے
موت کی چاپ کو اندھیرے میں
ہم نے دن رات ڈر کے دیکھا ہے
جان جائے تو جائے اب راشد
ہم نے حد سے گزر کے دیکھا ہے

0
14