مجھ کو تو یہ بھی مرحلہ دشوار ہی رہا |
اس کا ہمیشہ ملنے سے انکار ہی رہا |
ہاں فائدہ تو کچھ نہ دیا عشق میں مگر |
دلبر ہمیشہ باعث آزار ہی رہا |
اک شان برقرار رہی مفلسی میں بھی |
لٹ کر بھی میں تو صاحب کردار ہی رہا |
حق بات پر قائم رہا بیچا نہیں ضمیر |
احساس مصلحت مرا بیدار ہی رہا |
باطل کی کوئی چال بھی آڑے نہ آ سکی |
یاد خدا سے دل مرا سرشار ہی رہا |
عمر رواں کے ساتھ چلیں غم کی آندھیاں |
لیکن شجر دعا کا ثمردار ہی رہا |
اپنے حقوق کے لئے ہر شخص عمر بھر |
سارے جہاں سے بر سرے پیکار ہی رہا |
تھے آشنائے سود و زیاں راشد اس لئے |
اپنی نظر میں زیست کا بازار ہی رہا |
معلومات