دل نے آفت عجب اٹھا لی ہے
نیند کس نے مری چرا لی ہے
ہم بہاروں کو پھول دیتے ہیں
اپنا دامن اگرچہ خالی ہے
ایک جگنو نے رات بھر دیکھو
اک کرن سے سحر اجالی ہے
بھوک اگتی ہے اب تو کھیتوں میں
شہر کا زہر کیوں سوالی ہے
کوئی اترے تو دل کے آنگن میں
ایک مدت سے گھر یہ خالی ہے
انگلیاں کاٹ دیں قلم چھینا
حاکمِ شہر بھی مثالی ہے
اب تو سورج بھی تھک گیا راشد
ڈوبتے وقت منہ پہ لالی ہے

0
3