کیا عجب سی روشنی ہے اس نیارے شہر میں
جگنوؤں سے قمقمے جلتے ہیں سارے شہر میں
کون ہے اپنا یہاں، پردیس ہے، پردیس میں
ڈھونڈتا پھرتا ہے دل! کس کو اُدھارے شہر میں
کیا بتائیں حال تم کو اس دلِ بیکار کا
جسم ہے ساتھی مرا دل ہے تمہارے شہر میں
کون سنتا ہے تری، خاموش ہو بس چپ ہی رہ
شہر ہے بہروں کا تو گونگا پکارے شہر میں
شام ہوتے اس طرف ساگر کے سورج چھپ گیا
کون رہتا ہے وہاں مغرب کنارے شہر میں
عمر ساری کٹ گئی حالات پر بدلے نہیں
کیا کہیں دن کس طرح ہم نے گزارے شہر میں
بیچتا پھرتا ہوں سانسیں، کوئی ان کا مول دے
گاؤں کی گلیوں میں، سڑکوں پر غبارے شہر میں
وقت کی رفتار سے آگے نکل آیا ہوں میں
یادِ ماضی رہ گئی پیچھے ہمارے شہر میں
رات بھر میں کھوجتا رہتا ہوں اپنے آپ کو
دن نکل آتا ہے سجدوں کے سہارے شہر میں

0
2