تجھ پہ مرنے کے لیے کب سے یہ سودائی ہے
دل ہے پہلو میں مرے یا کوئی ہرجائی ہے
تجھ سے آباد کبھی دل کا جہاں تھا میرا
تیرے جاتے ہی مری جان پہ بن آئی ہے
اپنے آغوش سے اٹھنے نہیں دیتی مجھ کو
تجھ سے اچھی تو مرے یار یہ تنہائی ہے
نرم و نازک سا تخیل ترے جیسا کومل
چھو کے گزرا جو مجھے یاد تری آئی ہے
ایک لمحے کے لیے خود سے اگر مل پاؤں
خود سے پوچھوں گا بتا مجھ سے شناسائی ہے؟
چاند بھی نکلا نہیں بام پہ اک مدت سے
ایک مدت سے مری آنکھ بھی پتھرائی ہے
رات سوچا تھا ملاقات کروں گا لیکن
رات بھی دیر تلک نیند نہیں آئی ہے

0
5