| تجھ پہ مرنے کے لیے کب سے یہ سودائی ہے |
| دل ہے پہلو میں مرے یا کوئی ہرجائی ہے |
| تجھ سے آباد کبھی دل کا جہاں تھا میرا |
| تیرے جاتے ہی مری جان پہ بن آئی ہے |
| اپنے آغوش سے اٹھنے نہیں دیتی مجھ کو |
| تجھ سے اچھی تو مرے یار یہ تنہائی ہے |
| نرم و نازک سا تخیل ترے جیسا کومل |
| چھو کے گزرا جو مجھے یاد تری آئی ہے |
| ایک لمحے کے لیے خود سے اگر مل پاؤں |
| خود سے پوچھوں گا بتا مجھ سے شناسائی ہے؟ |
| چاند بھی نکلا نہیں بام پہ اک مدت سے |
| ایک مدت سے مری آنکھ بھی پتھرائی ہے |
| رات سوچا تھا ملاقات کروں گا لیکن |
| رات بھی دیر تلک نیند نہیں آئی ہے |
معلومات