لگنے کو تھی ٹھکانےمحنت ہوئی اکارت |
کچھ بھی نہ کام آئی ان آنسوؤں کی دولت |
سودا دلوں کا تھا سو میں مفت دے رہا تھا |
سیکھی نہیں تھی میں نے جذبات کی تجارت |
آباد تجھ سےتھی، اب ویران ہو گئی ہے |
مدت سے راہ تکتے دل کی حسیں عمارت |
بندِ قبا کی جیسے کھلتی نہیں ہیں گرہیں |
حل ہو نہ پائی مجھ سے یہ زیست کی بُجھارت |
مفقود ہو رہی ہے جنسِ وفا جہاں سے |
دھوکہ، فریب، نفرت، ہے جابجا حقارت |
بکھرے ہوئے ہیں ہر سُو جو آج میرے ٹکڑے |
اپنوں کا یہ کرم ہے اپنوں کی ہے عنایت |
سمجھو نہ ریت پر تم پتھر پہ نقش ہوں میں |
مٹ جاؤں گا جہاں سے ایسی نہیں عبارت |
معلومات