جیت پہ شک ہے ہار پہ شک ہے
مجھ کو ہر کردار پہ شک ہے
قاضی پر سالار پہ شک ہے
کٹھ پُتلی سرکار پہ شک ہے
گھر گھر پھیلی فرقہ بندی
دیں کے ٹھیکہ دار پہ شک ہے
کون ہے قاتل کون مسیحا؟
دشمن کے ہر وار پہ شک ہے
بھوک ہوس کی لے ڈوبے گی
مفلس کو زردار پہ شک ہے
عزت کے ہتھیارے چیخیں
ہر اک عزت دار پہ شک ہے
گھر میں بھی ہیں شک کے پہرے
کھڑکی، در، دیوار پہ شک ہے
رشتے ناطے پیار محبت
ان سب کےایثار پہ شک ہے
وصل بھلا ہوتا بھی کیسے؟
دونوں ہی کو پیار پہ شک ہے
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
اندر کے غدار پہ شک ہے
سانپوں سے ہے اپنی یاری
مطلب کے ہر یار پہ شک ہے
سچوں کی خاموشی پر اور
جھوٹوں کی تکرار پہ شک ہے
کس کو اپنا سمجھیں اب ہم
اک اک رشتہ دار پہ شک ہے
ناداں اب تک انکاری ہیں
اُن کو اس اوتار پہ شک ہے
ماں کی ہستی شک سے بالا
باقی سب سنسار پہ شک ہے

12