ہم نے صحرا سے کئی راز نہانی سیکھے
ہو گئے خاک تو پھر خاک اڑانی سیکھے
کب ہے آسان کہ رشتوں کا بھرم رکھے کوئی
خونِ دل ہو گیا تب ریت نبھانی سیکھے
مدتیں لگ گئیں الفاظ کو چنتے چنتے
ڈھل گئی عمر تو ہم بات بنانی سیکھے
تجربہ زیست کا ہو جائے گا دھیرے دھیرے
ٹھوکریں کھاتے ہوئے روز جوانی سیکھے
ہو گیا وقت سے پہلے مرا بچپن بوڑھا
تلخ حالات سے جینے کے معانی سیکھے
مدتوں بعد ہوئے زخم پرانے تازہ
مدتوں بعد تری یاد بھلانی سیکھے

0
2