عطائے دستِ قدرت نے عجب تقسیم رکھ دی ہے
بگولے ہیں چمن میں دشت میں تسنیم رکھ دی ہے
بہر صورت مجھے اب رُخ بدلنا ہے ہواؤں کا
سو میں نے طاقِ نسیاں پر خوئے تسلیم رکھ دی ہے
کہاں دن رات جاتے ہیں، کہاں سے لوٹ آتے ہیں؟
عناصر کے مرتب نے یہ کیا تنظیم رکھ دی ہے
بنایا آب و گِل سے اور سرشتِ عشق بھی دے دی
نگارِ خلق نے کچھ یوں مری تجسیم رکھ دی ہے
خدا بھی ساتھ دیتا ہے بشرطِ ہمتِ مرداں
بہت مشکل مراحل ہیں مگر تقویم رکھ دی ہے
سحر دم آنکھ کے سورج کو غسلِ شبنمی دے کر
دعائے نیم شب میں نور کی تحریم رکھ دی ہے
اقامت گاہِ دنیا میں نہیں رہتا کوئی قائم
حیاتِ جاودانی کے لیے تنویم رکھ دی ہے

0
7