خواب کو چیر کے تعبیر میں در آیا تھا |
رات آنگن میں مرے چاند اتر آیا تھا |
مرحلہ عشق کا آسان نہیں تھا لیکن |
پار یہ آگ کا دریا بھی میں کر آیا تھا |
مار کر اپنی انا عشق بچا لایا ہوں |
صُحبتِ قیس کا اتنا تو اثر آیا تھا |
کھینچ لایا تھا میں طوفاں سے جب اپنی کشتی |
تب ڈبونے کو کنارے پہ بھنور آیا تھا |
سرِ میداں مرے دل نے وہ دکھائے جوہر |
پھر مقابل نہ کوئی بارِ دگر آیا تھا |
شہر تو شہر تھا گلیاں بھی نہ تھیں پہلی سی |
بعد مدت کے جو میں لوٹ کے گھر آیا تھا |
میں نے بوئی تھیں محبت کی جو فصلیں راشد |
آخرش ان پہ محبت کا ثمر آیا تھا |
معلومات