| شب سکوتِ مرگ طاری تھا سبھی اشجار پر |
| پتا تک ہلتا نہ تھا تعزیر تھی گفتار پر |
| کیا اثر کرتی دوا بھی تیرے اُس بیمار پر |
| زندگی موقوف تھی جس کی ترے دیدار پر |
| پھر عجب انداز سے گلشن میں اتری ہے بہار |
| ہر کلی زخمائی ہے اور ہر کلی ہے خار پر |
| ایک ہی نقطہ ہے جس کے چار سو ہیں دائرے |
| قید ہیں اس میں سبھی پر گرد ہے افکار پر |
| لاکھ ہو مستور لیکن کب نظر سے دور ہے |
| بھید سارے کھولتا ہے دیدہء بیدار پر |
| شیخ جی اچھا نہیں ہے سر اٹھا کر دیکھنا |
| داغ لگ جاۓ کہیں نہ آپ کی دستار پر |
| دھوپ کیا نکلی کہ سایہ بھی جدا ہونے لگا |
| آسرا بھی گر کیا تو موم کی دیوار پر |
| سن کے میری داستاں نظریں جھکیں تھرائے لب |
| آتشیں لالی سی پھوٹی پھول سے رخسار پر |
| برق تھی پوشیدہ یا تھا چاند بادل میں چھپا |
| اک قیامت زلف ِ دوتا تھی رخِ دلدار پر |
| مئے بھی ہے ساقی بھی ہے اور خم بھی پیمانہ بھی ہے |
| کل وە ترسیں گے مُصِر ہیں آج جو انکار پر |
| کیسے کیسے کوە پیکر مل گئے ہیں خاک میں |
| اک نظر اے میرے ناداں ! کیفرِ کردار پر |
| ایک ہی جھونکا ہوا کا ریزہ ریزہ کر گیا |
| بت انا کے اُٹھ رہے تھے نخوت و پندار پر |
| خِرمنِ ہستی میں پیدا ہوچکا ہے نَخلِ آس |
| رکھ بہارِ جاوداں یا رب تو اس اوتار پر |
معلومات