جب سے پلٹ کے زیست محبت میں آئی ہے
تاثیر تیرے پیار کی ہمراہ لائی ہے
پھولوں نے جان دے کے یہ قیمت چکائی ہے
دستِ صبا کے ہاتھ میں خوشبو تھمائی ہے
خاموشیوں کی گونج سے گبھرا کے ایک چیخ
دیوار و در کی قید سے باہر تو آئی ہے
کاغذ نہ جل اْٹھے مری تحریر سے کہیں
لفظوں سے میں نے ضبط کی صورت بنائی ہے
پھولوں کی دلکشی ترے قربان ہو گئی
خوشبو ترے بدن کی صبا ساتھ لائی ہے
خوشیاں کشید کی ہیں میاں ہم نے درد سے
دل کو جلا کے ہم نے یہ دولت کمائی ہے
راشد طویل ہوتی شبِ ہجر میں مدام
دل نے تمہاری یاد کی مشعل جلائی ہے

0
2