| آنکھ کے کاجل سے چن لے رتجگوں کے سلسلے |
| دور تک پھیلے ہوئے ہیں وحشتوں کے سلسلے |
| درد کی پہنائیوں سے پھوٹتی ہے راگنی |
| سلسلہ در سلسلہ ہیں نفرتوں کے سلسلے |
| موت کے پہلو میں بیٹھی سوچتی ہے زندگی |
| کس طرح ہاتھ آئیں گے اب راحتوں کے سلسلے |
| پھول خوشبو نم ہوائیں گا رہے تھے کل یہاں |
| قافلہ در قافلہ تھے تتلیوں کے سلسلے |
| دل کے آنگن میں بسیرا ہو چلا ہے شام کا |
| اب فضا میں ناچتے ہیں آفتوں کے سلسلے |
| اے مسافر! بیٹھ کر دہلیز پر تو ڈھونڈ.. نا |
| کھو گئے جو راستوں میں منزلوں کے سلسلے |
| ارمغاں حالات کے یا تحفہ ہائے یار ہیں |
| نفرتوں کے وحشتوں کے الجھنوں کے سلسلے |
معلومات