پتھر راہ سے ہٹ جاتے ہیں
جو منزل کو ڈٹ جاتے ہیں
رب راضی ہو تو پانی سے
خود سر پتھر کٹ جاتے ہیں
دل میں جب آ جائے دُوری
گھر آنگن سب بٹ جاتے ہیں
نظروں سے گر جانے والے
اونچے قد بھی گھٹ جاتے ہیں
غم کے بادل جب بھی گھیریں
ایک دعا سے چھٹ جاتے ہیں
ہم سے گر تکلیف ہے تم کو
ہم رستے سے ہٹ جاتے ہیں
کچھ تو بات ہے تجھ میں راشد
جو دشمن بھی پٹ جاتے ہیں

0
3