وہی شور و آہ و فغاں ہے ہنوز
وہی درد کی داستاں ہے ہنوز
خدا کے سوا نا خدا ہیں کئی
کوئی شرک دل میں نہاں ہے ہنوز
نظر کیجیے جس طرف جس جگہ
وہی تیرگی کا جہاں ہے ہنوز
سسکتی بلکتی رہی مفلسی
ہوس خندہ زن تھی، جواں ہے ہنوز
کہاں میرے روکے سے رکتا ہے دل
سوئے دلبراں یہ کشاں ہے ہنوز
کڑی دھوپ میں سر پہ سایہ فگن
دعاؤں کا اک سائباں ہے ہنوز

16