| اکیلا تھا مگر تنہا نہیں تھا |
| میں خود سے لڑ کے بھی ہارا نہیں تھا |
| بغاوت راس آنے لگ گئی تھی |
| کسی سے دل مرا ڈرتا نہیں تھا |
| مرا دشمن یہ سمجھا، مٹ چکا ہوں |
| میں ٹوٹا تھا،مگر بکھرا نہیں تھا |
| تمھارے ہجر میں یہ آئی نوبت |
| میں پہلے خود سے بھی ملتا نہیں تھا |
| وہ مجھ کو چھوڑ جائے گا اچانک |
| یہ ہوگا سانحہ، سوچا نہیں تھا |
| میں اُس کی ساری باتیں مان لیتا |
| مگر وہ عشق میں سچا نہیں تھا |
| اُداسی کا سبب سب کیسے جانے؟ |
| ترا تو ذکر تک آیا نہیں تھا |
| محبت دائمی دُکھ ہے یقیناً |
| یہ دل پہلے اسے سمجھا نہیں تھا |
| مری آنکھیں سمندر کیوں نہ ہوتیں؟ |
| مرے اندر کوئی صحرا نہیں تھا |
| میں اُن رستوں سے ہو کر آ گیا ہوں |
| جہاں سے کوئی بھی گزرا نہیں تھا |
| مرے زخموں پہ مرہم کون رکھتا |
| کوئی بھی شہر میں اپنا نہیں تھا |
معلومات