| ایک ڈھونڈا تو صد نکل آئے |
| حاسدوں کے حسد نکل آئے |
| دھوپ ڈھلتے ہی بڑھ گئے سائے |
| سائیوں کے خال و خد نکل آئے |
| جاں گُسل ہے شعورِ آگاہی |
| اچھے اچھوں سے بد نکل آئے |
| کوئی سرحد نہیں محبت کی |
| پیار کی کیسے حد نکل آئے |
| رنج راحت فزا ہوا تو ہم |
| گھر سے کر کے قصد نکل آئے |
| اب وہ حیراں ہے نسب نامے پر |
| انبیاء میرے جَد نکل آئے |
| تجھ سے ہوتے ہی آشنا راشد |
| کتنے بونوں کے قد نکل آئے |
معلومات