ایک ڈھونڈا تو صد نکل آئے
حاسدوں کے حسد نکل آئے
دھوپ ڈھلتے ہی بڑھ گئے سائے
سائیوں کے خال و خد نکل آئے
جاں گُسل ہے شعورِ آگاہی
اچھے اچھوں سے بد نکل آئے
کوئی سرحد نہیں محبت کی
پیار کی کیسے حد نکل آئے
رنج راحت فزا ہوا تو ہم
گھر سے کر کے قصد نکل آئے
اب وہ حیراں ہے نسب نامے پر
انبیاء میرے جَد نکل آئے
تجھ سے ہوتے ہی آشنا راشد
کتنے بونوں کے قد نکل آئے

0
8