تمہیں لگتا ہے گھبرایا ہوا ہوں
نہیں، میں ہوش میں آیا ہوا ہوں
رہے ہیں جو، ہمیشہ دھوپ بن کر
میں ان کے واسطے سایا ہوا ہوں
ہیں مارِ آستیں کچھ یار اپنے
جنہیں دل کے قریں لایا ہوا ہوں
تو میرے ساتھ تھا تو زندگی تھی
بچھڑ کر تجھ سے کَملایا ہوا ہوں
جو رکھا تھا تمہاری ڈائری میں
وہی اک پھول مُرجھایا ہوا ہوں
تری ہی کج ادائی کی بدولت
میں اپنے آپ میں آیا ہوا ہوں

0
7