| عشق تھا یا خمار تھا؟ نہ رہا |
| وہ جنوں تھا کہ پیار تھا?؟ نہ رہا |
| مر مٹا آپ ہی پہ بالآخر |
| دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا |
| شبنمی آنکھ ہو گئی پتھر |
| ضبط پر اختیار تھا، نہ رہا |
| تیرے لہجہ بھی ہم سے روٹھ گیا |
| برہمی تھی کہ پیار تھا؟ نہ رہا |
| دھول سے چہرے ہوگئے پتھر |
| آئینوں پر غبار تھا، نہ رہا |
| بام پرآ کے تیرے جانے سے |
| چاندنی کو خمار تھا،نہ رہا |
| تیری آنکھوں میں تیرتا کاجل |
| حُسن کا پہریدار تھا، نہ رہا |
| ایک وعدہ نہ ہو سکا پورا |
| جو بھی قول و قرار تھا، نہ رہا |
| زندگی کے اداس لمحموں میں |
| اک ترا انتظار تھا؟ نہ رہا |
| آگئی تھی کہیں سے "میں" مجھ میں |
| میں جو مشتِ غبار تھا، نہ رہا |
| جوش تھا یا کوئی تھی بیماری |
| خون میں جو فشار تھا، نہ رہا |
معلومات